EN हिंदी
ہر ایک سمت جب اس کو پکارنا ٹھہرا | شیح شیری
har ek samt jab usko pukarna Thahra

غزل

ہر ایک سمت جب اس کو پکارنا ٹھہرا

ولی عالم شاہین

;

ہر ایک سمت جب اس کو پکارنا ٹھہرا
وہ پھر مری رگ جاں سے قریب کیا ٹھہرا

فریب خوردہ نظر کو فریب دوں کب تک
وہ ایک ابر تھا کیا آیا اور کیا ٹھہرا

جدھر سے جائیے رستے ادھر ہی جاتے تھے
مگر وہاں سے نکلنا تو معجزہ ٹھہرا

وہ سیل تھا کہ مسافر عدم کی راہ گئے
جہاز دور مگر خشکیوں پہ جا ٹھہرا

جو دن کو ہاتھ نہ آیا سراب کی صورت
وہ شب سمیت مرے کنج غم میں آ ٹھہرا

متاع جاں ہے جو اس ایک خواب کا حاصل
سلگتی آنکھ میں نیزے کا ذائقہ ٹھہرا

اب اس کے شہر پہ شاہینؔ ہر سفر ہے تمام
عجیب ہم سفری کا معاملہ ٹھہرا