ہر ایک سمت جب اس کو پکارنا ٹھہرا
وہ پھر مری رگ جاں سے قریب کیا ٹھہرا
فریب خوردہ نظر کو فریب دوں کب تک
وہ ایک ابر تھا کیا آیا اور کیا ٹھہرا
جدھر سے جائیے رستے ادھر ہی جاتے تھے
مگر وہاں سے نکلنا تو معجزہ ٹھہرا
وہ سیل تھا کہ مسافر عدم کی راہ گئے
جہاز دور مگر خشکیوں پہ جا ٹھہرا
جو دن کو ہاتھ نہ آیا سراب کی صورت
وہ شب سمیت مرے کنج غم میں آ ٹھہرا
متاع جاں ہے جو اس ایک خواب کا حاصل
سلگتی آنکھ میں نیزے کا ذائقہ ٹھہرا
اب اس کے شہر پہ شاہینؔ ہر سفر ہے تمام
عجیب ہم سفری کا معاملہ ٹھہرا

غزل
ہر ایک سمت جب اس کو پکارنا ٹھہرا
ولی عالم شاہین