EN हिंदी
ہر ایک سانس پہ دھڑکا کہ آخری تو نہیں | شیح شیری
har ek sans pe dhaDka ki aaKHiri to nahin

غزل

ہر ایک سانس پہ دھڑکا کہ آخری تو نہیں

ندیم بھابھہ

;

ہر ایک سانس پہ دھڑکا کہ کہیں آخری تو نہیں
ملے دوبارہ اگر ایسی زندگی تو نہیں

اچانک آنا تمہارا اور اس قدر چاہت
کہیں یہ دوست مری آخری خوشی تو نہیں

تو کیوں نہ تجھ سے تری گفتگو کی جائے
ترے علاوہ یہاں میرا کوئی بھی تو نہیں

ہم اہل عشق بڑے وضع دار ہوتے ہیں
ہماری آنکھ میں دیکھو کہیں نمی تو نہیں

فصیلیں چاٹنے والے مجھے بتائیں ندیمؔ
کہیں زمین پہ یہ آخری صدی تو نہیں