ہر ایک رنگ ہر اک خواب کے حصار میں تو
کہ آنسوؤں کی طرح چشم انتظار میں تو
اداس راکھ سے منظر کے ایک شہر میں میں
نئے جہان کی اک صبح زر نگار میں تو
میں اتنے دور افق سے پرے بھی دیکھ آیا
ملا تو جسم پر بکھرے ہوئے غبار میں تو
میں زخم زخم خزاؤں کے بیچ زندہ ہوں
نمو پزیر بہاروں کے رنگ زار میں تو
کہ تیرا نام تو جلتے دیوں کی لو میں ہے
تو بانسری کی ہر اک تان میں پکار میں تو
یہ رہ گزر تو تمازت کے شہر کو جائے
کہیں جلے نہ بہشتوں کے اعتبار میں تو
مجھے بچا لے تعاقب سے زرد موسم کے
مجھے چھپا لے پناہوں کے سبز غار میں تو

غزل
ہر ایک رنگ ہر اک خواب کے حصار میں تو
قیوم طاہر