EN हिंदी
ہر ایک پہ یہ راز بھی افشا نہیں ہوتا | شیح شیری
har ek pe ye raaz bhi ifsha nahin hota

غزل

ہر ایک پہ یہ راز بھی افشا نہیں ہوتا

سائل عمران

;

ہر ایک پہ یہ راز بھی افشا نہیں ہوتا
اچھا جو نظر آتا ہے اچھا نہیں ہوتا

روتے ہو بھلا کس لیے جب جانتے ہو تم
یہ عشق ہے اس عشق میں کیا کیا نہیں ہوتا

امید روا رکھتے ہو ہر ایک سے کیوں کر
ہر شخص زمانے میں مسیحا نہیں ہوتا

کرتا ہے جو ہر بات پہ سچائی کا دعویٰ
سچ بات تو یہ ہے کہ وہ سچا نہیں ہوتا

یادوں کے شبستان میں بیٹھا ہوا سائل
تنہا جو نظر آتا ہے تنہا نہیں ہوتا