ہر ایک نقش ترے پاؤں کا نشاں سا ہے
ہر ایک راہ گزر تیرا آستاں سا ہے
کہیں سمٹ کے نہ رہ جائے ہمت پرواز
کہ شاخ شاخ پہ پنہاں اک آشیاں سا ہے
ابھی گلوں کی نظر سے نظر نہیں ملتی
ابھی فضائے چمن میں دھواں دھواں سا ہے
نہ جانے شوق کی وہ رات کٹ گئی کیسے
ہر ایک لمحہ جہاں عمر جاوداں سا ہے
اجڑ گئی ہے مری کائنات دل پھر بھی
مری نگاہ میں آباد اک جہاں سا ہے
زباں پہ نام بھی آتا ہے تیرا رک رک کر
ہر ایک تار نفس دل کا پاسباں سا ہے
یہ کس نے آج جگائی ہے عہد رفتہ کی یاد
یہ کون دل کے قریں آج نوحہ خواں سا ہے
لگے ہیں دل سے ابھرنے وفا کے افسانے
کہ اپنے حال پہ پھر کوئی مہرباں سا ہے
غزل
ہر ایک نقش ترے پاؤں کا نشاں سا ہے
صوفی تبسم