ہر ایک لمحۂ موجود انتظار میں تھا
میں اگلے پل کی طرح وقت کے غبار میں تھا
ہر اک افق پہ مسلسل طلوع ہوتا ہوا
میں آفتاب کے مانند رہ گزار میں تھا
خود اپنے آپ میں الجھا ہوا تھا میرا وجود
میں چاک چاک گریباں کے تار تار میں تھا
جو اس کی خوش سخنی تک رسائی چاہتی تھی
مرا وجود بھی لفظوں کی اس قطار میں تھا
بالآخر آ ہی گئی اختلاف کی ساعت
میں جانتا ہوں تو اس پل کے انتظار میں تھا
غزل
ہر ایک لمحۂ موجود انتظار میں تھا
سعود عثمانی