ہر ایک جسم پہ بس ایک ہی سے گہنے لگے
ہمیں تو لوگ تمہارا ہی روپ پہنے لگے
بس ایک لو سی نظر آئی تھی پھر اس کے بعد
بجھے چراغ سیہ پانیوں پہ بہنے لگے
اسے بھی حادثہ کہیے کہ خشک دریا پر
پڑی جو دھوپ تو پتھر پگھل کے بہنے لگے
رتوں نے کروٹیں بدلیں تو ہم نے بھی اک بار
پھر اپنے گھر کو سجایا اور اس میں رہنے لگے
نہ جانے کیوں مرے احباب میرے بارے میں
جو بات عام تھی سرگوشیوں میں کہنے لگے
جو قطرہ قطرہ پیا ہم نے زندگی کا زہر
تو رندؔ بن کے ہر اک دل کا درد بہنے لگے

غزل
ہر ایک جسم پہ بس ایک ہی سے گہنے لگے
رند ساغری