EN हिंदी
ہر ایک حال میں چلنے سے جس کو کام رہا | شیح شیری
har ek haal mein chalne se jis ko kaam raha

غزل

ہر ایک حال میں چلنے سے جس کو کام رہا

جعفر بلوچ

;

ہر ایک حال میں چلنے سے جس کو کام رہا
وہ شخص قاعد یاران تیزگام رہا

سفر علامت ہستی سفر دلیل حیات
خوشا وہ لوگ سفر جن کا ناتمام رہا

حیات گل کا حیات چمن ہے پیمانہ
امر ہے پھول چمن کو اگر دوام رہا

بیاض مہر نگل کر بھی رات رات رہی
سیاہ کار کا چہرہ سیاہ فام رہا

حیات و موت کے سنگم پہ جی رہے ہیں ہم
ہمارا جشن طرب بھی غم التزام رہا

زمانہ خود کو مخاطب سمجھ نہ لے میرا
میں اپنے آپ سے دراصل ہم کلام رہا

عجیب جعفرؔ فرخندہ جاں کا مشرب ہے
کہ رند ہو کے بھی خوش بخت نیک نام رہا