ہر ایک حال میں چلنے سے جس کو کام رہا
وہ شخص قاعد یاران تیزگام رہا
سفر علامت ہستی سفر دلیل حیات
خوشا وہ لوگ سفر جن کا ناتمام رہا
حیات گل کا حیات چمن ہے پیمانہ
امر ہے پھول چمن کو اگر دوام رہا
بیاض مہر نگل کر بھی رات رات رہی
سیاہ کار کا چہرہ سیاہ فام رہا
حیات و موت کے سنگم پہ جی رہے ہیں ہم
ہمارا جشن طرب بھی غم التزام رہا
زمانہ خود کو مخاطب سمجھ نہ لے میرا
میں اپنے آپ سے دراصل ہم کلام رہا
عجیب جعفرؔ فرخندہ جاں کا مشرب ہے
کہ رند ہو کے بھی خوش بخت نیک نام رہا
غزل
ہر ایک حال میں چلنے سے جس کو کام رہا
جعفر بلوچ