ہر ایک گھر کا دریچہ کھلا ہے میرے لیے
تمام شہر ہی دامن کشا ہے میرے لیے
ہر ایک ترشے ہوئے جسم میں ہے آنچ تری
ہر ایک بت کدہ آتش کدہ ہے میرے لیے
بلائے جاں ہیں یہ گہرائیاں سمندر کی
عذاب عشرت قطرہ بنا ہے میرے لیے
میں ایک کھیل سمجھتا تھا درد الفت کو
تمام عمر کا اب رتجگا ہے میرے لیے
بھگو بھگو گیا بادل کسی کی زلفوں کا
ستم ظریف یہ کالی گھٹا ہے میرے لیے
غزل
ہر ایک گھر کا دریچہ کھلا ہے میرے لیے
رضا ہمدانی