EN हिंदी
ہر ایک گھر کا دریچہ کھلا ہے میرے لیے | شیح شیری
har ek ghar ka daricha khula hai mere liye

غزل

ہر ایک گھر کا دریچہ کھلا ہے میرے لیے

رضا ہمدانی

;

ہر ایک گھر کا دریچہ کھلا ہے میرے لیے
تمام شہر ہی دامن کشا ہے میرے لیے

ہر ایک ترشے ہوئے جسم میں ہے آنچ تری
ہر ایک بت کدہ آتش کدہ ہے میرے لیے

بلائے جاں ہیں یہ گہرائیاں سمندر کی
عذاب عشرت قطرہ بنا ہے میرے لیے

میں ایک کھیل سمجھتا تھا درد الفت کو
تمام عمر کا اب رتجگا ہے میرے لیے

بھگو بھگو گیا بادل کسی کی زلفوں کا
ستم ظریف یہ کالی گھٹا ہے میرے لیے