EN हिंदी
ہر ایک غم نچوڑ کے ہر اک برس جیے | شیح شیری
har ek gham nichoD ke har ek baras jiye

غزل

ہر ایک غم نچوڑ کے ہر اک برس جیے

گلزار

;

ہر ایک غم نچوڑ کے ہر اک برس جیے
دو دن کی زندگی میں ہزاروں برس جیے

صدیوں پہ اختیار نہیں تھا ہمارا دوست
دو چار لمحے بس میں تھے دو چار بس جیے

صحرا کے اس طرف سے گئے سارے کارواں
سن سن کے ہم تو صرف صدائے جرس جیے

ہونٹوں میں لے کے رات کے آنچل کا اک سرا
آنکھوں پہ رکھ کے چاند کے ہونٹوں کا مس جیے

محدود ہیں دعائیں مرے اختیار میں
ہر سانس پر سکون ہو تو سو برس جیے