ہر ایک گام پہ اک بت بنانا چاہا ہے
جسے بھی چاہا بہت کافرانہ چاہا ہے
ہزار قسم کے الزام اور خاموشی
تعلقات کو یوں بھی نبھانا چاہا ہے
گرائے جانے لگے ہیں درخت ہر جانب
کہ میں نے شاخ پہ اک آشیانہ چاہا ہے
ہے کیوں عداوت اغیار ہی کا ذکر یہاں
چمن تو اہل چمن نے جلانا چاہا ہے
حصار نفرت دور جدید میں دل نے
محبتوں کا پرانا زمانہ چاہا ہے
خدایا دشت نوردی کا شوق ہے کس کو
مسافروں نے فقط آب و دانہ چاہا ہے
چمن میں پھول تصورؔ کھلیں ہر اک جانب
اسی سبب سے تو صحرا بسانا چاہا ہے
غزل
ہر ایک گام پہ اک بت بنانا چاہا ہے
یعقوب تصور