EN हिंदी
ہر ایک گام پہ آسودگی کھڑی ہوگی | شیح شیری
har ek gam pe aasudgi khaDi hogi

غزل

ہر ایک گام پہ آسودگی کھڑی ہوگی

اعزاز افصل

;

ہر ایک گام پہ آسودگی کھڑی ہوگی
سفر کی آخری منزل بہت کڑی ہوگی

یہ اپنے خون کی لہروں میں ڈوبتی کشتی
بھنور سے بھاگ کے ساحل پہ جا پڑی ہوگی

مسافرو یہ خلش نوک خار کی تو نہیں
ضرور پاؤں تلے کوئی پنکھڑی ہوگی

ترے خلوص تحفظ میں شک نہیں لیکن
ہوا میں ریت کی دیوار گر پڑی ہوگی

نظام قید مسلسل میں کیسی آزادی
کھلے جو پاؤں تو ہاتھوں میں ہتھکڑی ہوگی

ترے فرار کی سرحد قریب تھی لیکن
مری تلاش ذرا دور جا پڑی ہوگی

تمہارے دور مسلسل کی منضبط تاریخ
ہمارے رقص مسلسل کی اک کڑی ہوگی

مرے گمان کی بنیاد کھوکھلی نکلی
ترے یقیں کی عمارت کہاں کھڑی ہوگی