EN हिंदी
ہر ایک چیز ہے فانی فقط حیات نہیں | شیح شیری
har ek chiz hai fani faqat hayat nahin

غزل

ہر ایک چیز ہے فانی فقط حیات نہیں

فرحت شہزاد

;

ہر ایک چیز ہے فانی فقط حیات نہیں
بجز خدا کے کسی کو یہاں ثبات نہیں

حیات نام ہی تبدیلیوں کا ہے جاناں
بدل گئے ہو جو تم بھی تو کوئی بات نہیں

کرم ہے یہ مرے دو ایک خاص یاروں کا
تباہیوں میں مری دشمنوں کا ہاتھ نہیں

کہ جیسے دل نہیں سینے میں دکھ دھڑکتا ہے
جہاں بھی جاؤں الم سے کہیں نجات نہیں

غضب کا سلسلہ تھمنے ہی میں نہیں آتا
ذرا سا پیار ہی مانگا تھا کائنات نہیں

میں زخم زخم سہی حوصلہ تو قائم ہے
شکستہ حال تو ہوں پر یہ میری مات نہیں

چلی گئی ہو جو تم بھی تو کیا گلہ تم سے
یہاں تو یوں ہے کہ میں خود بھی اپنے ساتھ نہیں

سحر بھی گھر مرے شہزادؔ تیرگی لائی
قصوروار مری جان صرف رات نہیں