ہر ایک بندش خود ساختہ بیاں سے اٹھا
تکلفات کا پردہ بھی درمیاں سے اٹھا
فقط خلا ہی نہیں ہے صدا لگاتے چلو
کہ ابر بارش نیساں بھی آسماں سے اٹھا
شجر کے سائے میں بیٹھا ہوں میں تجھے کیا ہے
جو ہو سکے تو مجھے اپنے آستاں سے اٹھا
فسوں طراز تھی کب چشم نیم وا اتنی
لہو کا فتنہ مگر زیب داستاں سے اٹھا
نظر نہ آئی جو راہ مفر تو پھر میں بھی
دھواں دھواں سا سر بزم دوستاں سے اٹھا
یہاں کی رسم ہے صہباؔ کساد بازاری
یہ جنس دل ہے بڑی بے بہا دکاں سے اٹھا

غزل
ہر ایک بندش خود ساختہ بیاں سے اٹھا
صہبا وحید