EN हिंदी
ہر ایک بات تری بے ثبات کتنی ہے | شیح شیری
har ek baat teri be-sabaat kitni hai

غزل

ہر ایک بات تری بے ثبات کتنی ہے

بیخود دہلوی

;

ہر ایک بات تری بے ثبات کتنی ہے
پلٹنا بات کو دم بھر میں بات کتنی ہے

ابھی تو شام ہوئی ہے ابھی تو آئے ہو
ابھی سے پوچھ رہے ہو کہ رات کتنی ہے

وہ سنتے سنتے جو گھبرائے حال دل بولے
بیان کتنی ہوئی واردات کتنی ہے

ترے شہید کو دولہا بنا ہوا دیکھا
رواں جنازے کے پیچھے برات کتنی ہے

کسی طرح نہیں کٹتی نہیں گزر چکتی
الٰہی سخت یہ قید حیات کتنی ہے

ہماری جان ہے قیمت تو دل ہے بیعانہ
گراں بہا لب نازک کی بات کتنی ہے

جو شب کو کھلتے ہیں غنچے وہ دن کو جھڑتے ہیں
بہار باغ جہاں بے ثبات کتنی ہے

مہینوں ہو گئے دیکھی نہیں ہے صبح امید
کسے خبر یہ مصیبت کی رات کتنی ہے

عدو کے سامنے یہ دیکھنا ہے ہم کو بھی
کدھر کو ہے نگہ التفات کتنی ہے

غزل لکھیں بھی تو کیا خاک ہم لکھیں بیخودؔ
زمین دیکھیے یہ واہیات کتنی ہے