EN हिंदी
ہر دن جس پر پھول کھلیں وہ بے موسم کی ڈال نہیں میں | شیح شیری
har din jis par phul khilen wo be-mausam ki Dal nahin main

غزل

ہر دن جس پر پھول کھلیں وہ بے موسم کی ڈال نہیں میں

رزاق افسر

;

ہر دن جس پر پھول کھلیں وہ بے موسم کی ڈال نہیں میں
ساجے نہ ساجے ہر کندھے پر پڑنے والی شال نہیں میں

مٹی کا ہوں پیالہ لیکن پیاس میں سب کا ہاتھ بٹاؤں
جوڑ لیں جس میں آرتی جھٹ سے پیتل کی وہ تھال نہیں میں

خوب خزاں کو اس کا پتہ ہے حال زبوں بھی میرا جدا ہے
دوش ہوا پر اڑنے والے پتوں سا بے حال نہیں میں

میرا مقدر ہاتھ میں میرے وقت سے میرے رشتے ناتے
جھوٹی تسلی دینے والی کوئی کتاب فال نہیں میں

باد مخالف لاکھ چلے پر اڑ نہیں پائے رنگت میری
رنگ برنگ کلینڈر پر چھپنے والا سال نہیں میں

فن کارو کی سنت ہوں افسرؔ جو ہے دل میں وہ ہے منہ پر
پھانسنے والی چال ہے جس میں مکڑی کا وہ جال نہیں میں