ہر درد سے باندھے ہوئے رشتہ کوئی گزرے
قاتل کوئی گزرے نہ مسیحا کوئی گزرے
آئینہ بہ ہر راہ گزر بن گئیں آنکھیں
اک عمر سے بیٹھے ہیں کہ تم سا کوئی گزرے
وہ تشنگیٔ جاں ہے کہ صحرا کو ترس آئے
اب ہونٹوں کو چھوتا ہوا دریا کوئی گزرے
ان سے بھی علاج غم پنہاں نہیں ہوگا
کہہ دیں جو اگر ان کا شناسا کوئی گزرے

غزل
ہر درد سے باندھے ہوئے رشتہ کوئی گزرے
ڈاکٹر محمد علی جوہر