EN हिंदी
ہر چوٹ پہ پوچھے ہے بتا یاد رہے گی | شیح شیری
har choT pe puchhe hai bata yaad rahegi

غزل

ہر چوٹ پہ پوچھے ہے بتا یاد رہے گی

کلیم عاجز

;

ہر چوٹ پہ پوچھے ہے بتا یاد رہے گی
ہم کو یہ زمانے کی ادا یاد رہے گی

دن رات کے آنسو سحر و شام کی آہیں
اس باغ کی یہ آب و ہوا یاد رہے گی

کس دھوم سے بڑھتی ہوئی پہنچی ہے کہاں تک
دنیا کو تری زلف رسا یاد رہے گی

کرتے رہیں گے تم سے محبت بھی وفا بھی
گو تم کو محبت نہ وفا یاد رہے گی

کس بات کا تو قول و قسم لے ہے برہمن
ہر بات بتوں کی بخدا یاد رہے گی

چلتے گئے ہم پھول بناتے گئے چھالے
صحرا کو مری لغزش پا یاد رہے گی

جس بزم میں تم جاؤ گے اس بزم کو عاجزؔ
یہ گفتگوئے بے سروپا یاد رہے گی