ہر چوٹ پہ پوچھے ہے بتا یاد رہے گی
ہم کو یہ زمانے کی ادا یاد رہے گی
دن رات کے آنسو سحر و شام کی آہیں
اس باغ کی یہ آب و ہوا یاد رہے گی
کس دھوم سے بڑھتی ہوئی پہنچی ہے کہاں تک
دنیا کو تری زلف رسا یاد رہے گی
کرتے رہیں گے تم سے محبت بھی وفا بھی
گو تم کو محبت نہ وفا یاد رہے گی
کس بات کا تو قول و قسم لے ہے برہمن
ہر بات بتوں کی بخدا یاد رہے گی
چلتے گئے ہم پھول بناتے گئے چھالے
صحرا کو مری لغزش پا یاد رہے گی
جس بزم میں تم جاؤ گے اس بزم کو عاجزؔ
یہ گفتگوئے بے سروپا یاد رہے گی
غزل
ہر چوٹ پہ پوچھے ہے بتا یاد رہے گی
کلیم عاجز