ہر چہرہ نہ جانے کیوں گھبرایا ہوا سا ہے
بے چین سا لگتا ہے تڑپایا ہوا سا ہے
کیا دھوکہ نیا کوئی کھایا ہے محبت میں
ہر عضو بدن اس کا تھرایا ہوا سا ہے
آنکھوں میں چمک سی ہے رخسار میں سرخی سی
آغوش میں الفت کی شرمایا ہوا سا ہے
کھلنے کی تمنا تھی زلفوں کے گلستاں میں
دل ٹوٹ گیا گل کا مرجھایا ہوا سا ہے
کھلنے میں قباحت ہے گیسوئے محبت کو
چہرہ شب حسرت کا پتھرایا ہوا سا ہے
الفاظ کی آنکھوں سے برسات ہے اشکوں کی
لہجہ غم جاناں سے بھرایا ہوا سا ہے
نفرت کی شعاعوں کی یلغار ہے ہر جاں پر
جس قلب میں بھی جھانکو کمھلایا ہوا سا ہے
الحاد کا حملہ ہے جاویدؔ ہر اک جانب
عالم کا یہ عالم ہے پگلایا ہوا سا ہے

غزل
ہر چہرہ نہ جانے کیوں گھبرایا ہوا سا ہے
جاوید جمیل