ہر چند تری یاد جنوں خیز بہت ہے
میں جاگ رہا ہوں کہ ہوا تیز بہت ہے
کیوں کر نہ مرے تن سے چھلک جائے خموشی
پیمانۂ جاں ضبط سے لبریز بہت ہے
کیا کوہ گراں ٹھہرے تری راہ گزر میں
اے حسن تری ایک ہی مہمیز بہت ہے
اک چاند کی کشتی ہی نہیں ڈوبنے والی
ورنہ وہ سمندر تو بلا خیز بہت ہے
گلدان سے لگتے ہی بکھر جاتی ہے تتلی
گویا یہ رگ سنگ بھی خوں ریز بہت ہے
پلکوں پہ کوئی پھول نہیں ہے تو عجب کیا
کہنے کو تو مٹی مری زرخیز بہت ہے
تم خود سا سمجھ کر نہ اسے ہاتھ لگانا
وہ خاک کا پتلا ہی سہی تیز بہت ہے
دھرنا ہے کہیں تو یہ گراں بارئ خاطر
زانو جو نہیں سر کے لئے میز بہت ہے
کیا ہے جو کٹورے کے بھی پیراک نہیں ہم
جینے کو تو یہ حیلۂ تبریز بہت ہے
تابشؔ جو گزرتی ہی نہیں شام کی حد سے
سوچیں تو وہیں رات سحر خیز بہت ہے
غزل
ہر چند تری یاد جنوں خیز بہت ہے
عباس تابش