ہر چند مرا غم غم نادیدہ رہا ہے
سایہ سا مگر روح پہ لرزیدہ رہا ہے
چبھتے ہی رہے خار الم دست طلب میں
راحت وہ گل جاں ہے کہ ناچیدہ رہا ہے
ڈوبے ہیں یہاں کتنی امنگوں کے سفینے
طوفان کا مسکن دل شوریدہ رہا ہے
بازیچۂ فردوس سے کیا بہلے گا وہ دل
معراج طرب پر بھی جو رنجیدہ رہا ہے
اے منزل نو یافتہ میں تیرے نشاں تک
جس رستے سے پہنچا ہوں وہ پیچیدہ رہا ہے
تشویش کے ان رمنوں سے گزرا ہوں اکیلا
احساس جہاں خوف سے رم دیدہ رہا ہے
کاٹے ہیں وہ صحرائے تمنا تن تنہا
عارفؔ بھی جہاں نظروں سے پوشیدہ رہا ہے
تسکین کے بہروپ میں اب جاگا ہے وہ حشر
برسوں مرے پہلو میں جو خوابیدہ رہا ہے
غزل
ہر چند مرا غم غم نادیدہ رہا ہے
عارف عبدالمتین