ہر چند میرے حال سے وہ بے خبر نہیں
لیکن وہ بے کلی جو ادھر ہے ادھر نہیں
آواز رفتگاں مجھے لاتی ہے اس طرف
یہ راستہ اگرچہ مری رہ گزر نہیں
چمکی تھی ایک برق سی پھولوں کے آس پاس
پھر کیا ہوا چمن میں مجھے کچھ خبر نہیں
کچھ اور ہو نہ ہو چلو اپنا ہی دل جلے
اتنا بھی اپنی آہ میں لیکن اثر نہیں
آتی نہیں ہے ان سے شناسائی کی مہک
یہ میرے اپنے شہر کے دیوار و در نہیں
باصرؔ جگا دیا ہے تمہیں کس نے آدھی رات
اس دشت میں تو نام و نشان سحر نہیں
غزل
ہر چند میرے حال سے وہ بے خبر نہیں
باصر سلطان کاظمی