EN हिंदी
ہر چند کہ تھا ہجر میں اندیشۂ جاں بھی | شیح شیری
har-chand ki tha hijr mein andesha-e-jaan bhi

غزل

ہر چند کہ تھا ہجر میں اندیشۂ جاں بھی

پریم کمار نظر

;

ہر چند کہ تھا ہجر میں اندیشۂ جاں بھی
آخر کو تو ہم سے ہی اٹھا بار گراں بھی

اک گوشۂ در رکھا ہے محفوظ ہمارا
اس وسعت کونین میں ہم جائیں جہاں بھی

معدوم بھی ہوں اہل تماشا کی نظر میں
بکھرا ہے ہر اک سمت مگر میرا نشاں بھی

کچھ کم نہ ہوا رزق خدا تیرے گدا پر
ہر چند کہ گلیوں میں اٹھا شور سگاں بھی

کام آتی ہے اکثر تو یہی خانہ بدوشی
رکھنے کو تو ہم شہر میں رکھتے ہیں مکاں بھی

اس وقت عجب ہوتا ہے ترسیل کا عالم
لفظوں کو ترس جاتے ہیں جب اہل زباں بھی