ہر چند کہ ساغر کی طرح جوش میں رہئے
ساقی سے ملے آنکھ تو پھر ہوش میں رہئے
کچھ اس کے تصور میں وہ راحت ہے کہ برسوں
بیٹھے یوں ہی اس وادیٔ گل پوش میں رہئے
اک سادہ تبسم میں وہ جادو ہے کہ پہروں
ڈوبے ہوئے اک نغمۂ خاموش میں رہئے
ہوتی ہے یہاں قدر کسے دیدہ وری کی
آنکھوں کی طرح اپنے ہی آغوش میں رہئے
ٹھہرائی ہے اب حال غم دل نے یہ صورت
مستی کی طرح دیدۂ مے نوش میں رہئے
ہمت نے چلن اب یہ نکالا ہے کہ چبھ کر
کانٹے کی طرح پائے طلب کوش میں رہئے
آسودہ دلی راس نہیں ارض سخن کو
ہے شرط کہ دریا کی طرح جوش میں رہئے

غزل
ہر چند کہ ساغر کی طرح جوش میں رہئے
شان الحق حقی