ہر چند کہ دیکھے ہے وہ پیار کی آنکھوں سے
پر نکلے ہے بے رنگی اس پار کی آنکھوں سے
شدت سے لگا ہنسنے احوال پہ گر میرے
آنسو بھی کبھی ٹپکے مکار کی آنکھوں سے
بے طاقتیٔ دل کا کیا شرح و بیاں کیجئے
بیماری نمایاں ہے بیمار کی آنکھوں سے
ہے تیغ نگہ کھینچے شمشیر بکف مژگاں
اب جیتے نہیں بچتے خوں خار کی آنکھوں سے
لاکھوں ہی کی آنکھوں سے آنکھوں تری بہتر ہیں
کیا اچھی ہیں اے پیاسے وہ چار کی آنکھوں سے
مت اہل دلوں سے کر ہم چشمی اے آئینے
غافل نہ ملا آنکھیں بیدار کی آنکھوں سے
ہر طرح سے دیکھا وہ دیکھ ہی لیتا ہے
تیاری کرے کیا کوئی عیار کی آنکھوں سے
اتنی بھی رسائی ہو ؔجوشش تو غنیمت ہے
خاک کف پا ملئے دل دار کی آنکھوں سے
غزل
ہر چند کہ دیکھے ہے وہ پیار کی آنکھوں سے
جوشش عظیم آبادی