EN हिंदी
ہر چند کہ دیکھے ہے وہ پیار کی آنکھوں سے | شیح شیری
har-chand ki dekhe hai wo pyar ki aankhon se

غزل

ہر چند کہ دیکھے ہے وہ پیار کی آنکھوں سے

جوشش عظیم آبادی

;

ہر چند کہ دیکھے ہے وہ پیار کی آنکھوں سے
پر نکلے ہے بے رنگی اس پار کی آنکھوں سے

شدت سے لگا ہنسنے احوال پہ گر میرے
آنسو بھی کبھی ٹپکے مکار کی آنکھوں سے

بے طاقتیٔ دل کا کیا شرح و بیاں کیجئے
بیماری نمایاں ہے بیمار کی آنکھوں سے

ہے تیغ نگہ کھینچے شمشیر بکف مژگاں
اب جیتے نہیں بچتے خوں خار کی آنکھوں سے

لاکھوں ہی کی آنکھوں سے آنکھوں تری بہتر ہیں
کیا اچھی ہیں اے پیاسے وہ چار کی آنکھوں سے

مت اہل دلوں سے کر ہم چشمی اے آئینے
غافل نہ ملا آنکھیں بیدار کی آنکھوں سے

ہر طرح سے دیکھا وہ دیکھ ہی لیتا ہے
تیاری کرے کیا کوئی عیار کی آنکھوں سے

اتنی بھی رسائی ہو ؔجوشش تو غنیمت ہے
خاک کف پا ملئے دل دار کی آنکھوں سے