EN हिंदी
ہر چند جیسا سوچا تھا ویسا نہیں ہوا | شیح شیری
har-chand jaisa socha tha waisa nahin hua

غزل

ہر چند جیسا سوچا تھا ویسا نہیں ہوا

نجیب احمد

;

ہر چند جیسا سوچا تھا ویسا نہیں ہوا
لیکن کہا ہوا کا بھی پورا نہیں ہوا

تم ایک گرد باد تھے چکرا کے رہ گئے
ہم سے بھی پار ذات کا صحرا نہیں ہوا

خوشبو کہیں تو پھول ہوا لے اڑی کہیں
یوں منتشر کسی کا قبیلہ نہیں ہوا

سو وسوسوں کی گرد برستی رہی مگر
دل ایسا آئنہ تھا کہ میلا نہیں ہوا

پتھر تھے ہم سو دولت احساس مل گئی
لٹ کر بھی کار دل میں خسارا نہیں ہوا

گزرے دنوں کا روپ تھی اس رت کی دھوپ بھی
سو اس برس بھی غم کا مداوا نہیں ہوا

لوگوں پہ کھل چکے تھے مداری کے گر نجیبؔ
سو کوئی بھی اسیر تماشا نہیں ہوا