ہر چند بھلاتا ہوں بھلایا نہیں جاتا
اک نقش تخیل ہے مٹایا نہیں جاتا
میں نے جو کہا درد بڑھایا نہیں جاتا
کہنے لگے نادان جتایا نہیں جاتا
امید کی کشتی کو سہارا تو لگا دو
مانا کہ تمہیں ساتھ بٹھایا نہیں جاتا
وہ داغ محبت کا نشاں پوچھ رہے ہیں
حالانکہ سمجھتے ہیں دکھایا نہیں جاتا
اب ان کا تقاضہ ہے کہانی نہیں کہتے
جب قصۂ غم ہم سے سنایا نہیں جاتا
ایذا طلبی کی کوئی حد ہو تو جفا ہو
اب وہ بھی ہیں مجبور ستایا نہیں جاتا
تم آؤ گے اور شب کو ذرا سوچ کے کہتے
تم سے تو تصور میں بھی آیا نہیں جاتا
طالبؔ مری باتیں انہیں باور نہیں آتیں
دل چیر کے پہلو کو دکھایا نہیں جاتا
غزل
ہر چند بھلاتا ہوں بھلایا نہیں جاتا
طالب باغپتی