ہر چند بے نوا ہے کورے گھڑے کا پانی
دیوان میرؔ کا ہے کورے گھڑے کا پانی
اپلوں کی آگ اب تک ہاتھوں سے جھانکتی ہے
آنکھوں میں جاگتا ہے کورے گھڑے کا پانی
جب مانگتے ہیں سارے انگور کے شرارے
اپنی یہی صدا ہے کورے گھڑے کا پانی
کاغذ پہ کیسے ٹھہریں مصرعے مری غزل کے
لفظوں میں بہہ رہا ہے کورے گھڑے کا پانی
خانہ بدوش چھوری تکتی ہے چوری چوری
اس کا تو آئنہ ہے کورے گھڑے کا پانی
چڑیوں سی چہچہائیں پنگھٹ پہ جب بھی سکھیاں
چپ چاپ رو دیا ہے کورے گھڑے کا پانی
اس کے لہو میں شاید تاثیر ہو وفا کی
جس نے کبھی پیا ہے کورے گھڑے کا پانی
عزت ضمیر محنت دانش ہنر محبت
لیکن کبھی بکا ہے کورے گھڑے کا پانی
دیکھوں جو چاندنی میں لگتا ہے مجھ کو اسلمؔ
پگھلی ہوئی دعا ہے کورے گھڑے کا پانی
غزل
ہر چند بے نوا ہے کورے گھڑے کا پانی
اسلم کولسری