EN हिंदी
ہر بات تری جان جہاں مان رہا ہوں | شیح شیری
har baat teri jaan-e-jahan man raha hun

غزل

ہر بات تری جان جہاں مان رہا ہوں

سلیمان اریب

;

ہر بات تری جان جہاں مان رہا ہوں
اب خاک رہ کاہکشاں چھان رہا ہوں

اصنام سے دیرینہ تعلق کی بدولت
میں کفر کا ہر دور میں ایمان رہا ہوں

دنیا سے لڑائی تو ازل ہی سے رہی ہے
اب خود سے جھگڑنے کی بھی میں ٹھان رہا ہوں

اب تک تو شب و روز کچھ اس طرح کٹے ہیں
جس جا بھی رہا اپنا ہی مہمان رہا ہوں

منصب یہ مجھے جبر مشیت سے ملا ہے
چلتی ہوئی لاشوں کا نگہبان رہا ہوں

وہ شعر ہوں جس کو ابھی سوچے گا زمانہ
لکھا نہ گیا جس کو وہ دیوان رہا ہوں

بے تاج ہوں بے تخت ہوں بے ملک و حکومت
ہاں نام کا لیکن میں سلیمانؔ رہا ہوں