ہر بات جو نہ ہونا تھی ایسی ہوئی کہ بس
کچھ اور چاہئے تجھے اے زندگی کہ بس
جو دن نہیں گزرنا تھے وہ بھی گزر گئے
دنیا ہے ہم ہیں اور ہے وہ بے بسی کہ بس
جن پر نثار نقد سکوں نقد جاں کیا
ان سے ملے تو ایسی ندامت ہوئی کہ بس
میں جس کو دیکھتا تھا اچٹتی نگاہ سے
ان کی نگاہ مجھ پہ کچھ ایسی پڑی کہ بس
منزل سمجھ کے دار پہ میں تو نہ رک سکا
خود مجھ سے میری زندگی کہتی رہی کہ بس
وہ مسئلے حیات کے جو مسئلے نہیں
ان مسئلوں سے الجھا ہے یوں آدمی کہ بس
پہنچا جہاں بھی لوگ یہ کہتے ہوئے ملے
تہذیب اپنے شہر کی ایسی مٹی کہ بس
دنیا غریب جان کے ہنستی تھی میرؔ پر
اقبالؔ مجھ پہ ایسے یہ دنیا ہنسی کہ بس
غزل
ہر بات جو نہ ہونا تھی ایسی ہوئی کہ بس
اقبال عمر