ہر عکس خود ایک آئنہ ہے
ہر سایہ زباں سے بولتا ہے
احساس کی تلخیوں میں ڈھل کر
دل درد کا چاند بن گیا ہے
سنتا ہو کوئی تو ہر کلی کے
کھلنے میں شکست کی صدا ہے
یوں آتی ہے تیری یاد اب تو
جیسے کوئی دور کی صدا ہے
گویا تھے تو کوئی بھی نہیں تھا
اب چپ ہیں تو شہر دیکھتا ہے
عاجز ہے اجل بھی اس کے آگے
جو مثل صبا بکھر گیا ہے
تو سلسلۂ سوال بن کر
کیوں ذہنوں کے بن میں گونجتا ہے
قربت تری کس کو راس آئی
آئینے میں عکس کانپتا ہے
جیتے ہیں روایتاً رضاؔ ہم
اس دور میں زندگی سزا ہے
غزل
ہر عکس خود ایک آئنہ ہے
رضا ہمدانی