EN हिंदी
ہر ادا تند اور نبات اس کی | شیح شیری
har ada tund aur nabaat uski

غزل

ہر ادا تند اور نبات اس کی

تابش صدیقی

;

ہر ادا تند اور نبات اس کی
دل میں کھبتی ہے بات بات اس کی

جان دی جس نے تیرے قدموں میں
ہو گئی موت بھی حیات اس کی

دل مرحوم کا تو ذکر ہی کیا
تم تھے لے دے کے کائنات اس کی

مر گیا دل وفا کے دھوکے میں
نہ سنی تم نے واردات اس کی

نہ گیا شیخ کا جنون‌ بہشت
نہ ہوئی مر کے بھی نجات اس کی

ذرہ جو تیری بارگاہ میں ہے
صبح اس کی دن اس کا رات اس کی

تم بھی تابشؔ کو جانتے ہو گے
حسن مذہب ہے عشق ذات اس کی