ہر ادا تند اور نبات اس کی
دل میں کھبتی ہے بات بات اس کی
جان دی جس نے تیرے قدموں میں
ہو گئی موت بھی حیات اس کی
دل مرحوم کا تو ذکر ہی کیا
تم تھے لے دے کے کائنات اس کی
مر گیا دل وفا کے دھوکے میں
نہ سنی تم نے واردات اس کی
نہ گیا شیخ کا جنون بہشت
نہ ہوئی مر کے بھی نجات اس کی
ذرہ جو تیری بارگاہ میں ہے
صبح اس کی دن اس کا رات اس کی
تم بھی تابشؔ کو جانتے ہو گے
حسن مذہب ہے عشق ذات اس کی
غزل
ہر ادا تند اور نبات اس کی
تابش صدیقی