ہر آنکھ کا حاصل دوری ہے
ہر منظر اک مستوری ہے
جو سود و زیاں کی فکر کرے
وہ عشق نہیں مزدوری ہے
سب دیکھتی ہیں سب جھیلتی ہیں
یہ آنکھوں کی مجبوری ہے
اس ساحل سے اس ساحل تک
کیا کہیے کتنی دوری ہے
یہ قرب حباب و آب کا ہے
یہ وصل نہیں مہجوری ہے
میں تجھ کو کتنا چاہتا ہوں
یہ کہنا غیر ضروری ہے

غزل
ہر آنکھ کا حاصل دوری ہے
سلیم احمد