EN हिंदी
ہر آنکھ کا حاصل دوری ہے | شیح شیری
har aankh ka hasil duri hai

غزل

ہر آنکھ کا حاصل دوری ہے

سلیم احمد

;

ہر آنکھ کا حاصل دوری ہے
ہر منظر اک مستوری ہے

جو سود و زیاں کی فکر کرے
وہ عشق نہیں مزدوری ہے

سب دیکھتی ہیں سب جھیلتی ہیں
یہ آنکھوں کی مجبوری ہے

اس ساحل سے اس ساحل تک
کیا کہیے کتنی دوری ہے

یہ قرب حباب و آب کا ہے
یہ وصل نہیں مہجوری ہے

میں تجھ کو کتنا چاہتا ہوں
یہ کہنا غیر ضروری ہے