ہر آنے والے پل سے ڈر رہا ہوں
کن اندیشوں میں گھر کر رہ گیا ہوں
کسی پیاسی ندی کی بد دعا ہوں
سمندر تھا مگر صحرا ہوا ہوں
بس اب انجام کیا ہے یہ بتا دو
بہت لمبی کہانی ہو گیا ہوں
وہی میرے لیے اب اجنبی ہیں
میں جن کے ساتھ صدیوں تک رہا ہوں
کوئی انہونی ہو جائے گی جیسے
میں اب ایسی ہی باتیں سوچتا ہوں
کھڑی ہو موت دروازے پہ جیسے
میں گھر میں ہوں مگر سہما ہوا ہوں
ابھی کچھ دیر پہلے چپ لگی تھی
تمہیں ہمدرد پا کر رو دیا ہوں
میں کوئی شہر ہوں صدیوں پرانا
ہزاروں بار اجڑا ہوں بسا ہوں
مرا اب کوئی مستقبل نہیں ہے
میں اب ماضی میں اپنے جی رہا ہوں
مجھے شاید بھلا پائے نہ دنیا
میں اپنے عہد کا اک حادثہ ہوں
سلامت ہوں بظاہر لیکن ارشدؔ
میں اندر سے بہت ٹوٹا ہوا ہوں
غزل
ہر آنے والے پل سے ڈر رہا ہوں
رزاق ارشد