ہر آن ستم ڈھائے ہے کیا جانیے کیا ہو
دل غم سے بھی گھبرائے ہے کیا جانیے کیا ہو
کیا غیر کو ڈھونڈیں کہ ترے کوچے میں ہر ایک
اپنا سا نظر آئے ہے کیا جانیے کیا ہو
آنکھوں کو نہیں راس کسی یاد کا آنسو
تھم تھم کے ڈھلک جائے ہے کیا جانیے کیا ہو
اس بحر میں ہم جیسوں پہ ہر موجۂ پر خوں
آ آ کے گزر جائے ہے کیا جانیے کیا ہو
دنیا سے نرالے ہیں تری بزم کے دستور
جو آئے سو پچھتائے ہے کیا جانیے کیا ہو
غزل
ہر آن ستم ڈھائے ہے کیا جانیے کیا ہو
زہرا نگاہ