EN हिंदी
ہر آن ستم ڈھائے ہے کیا جانیے کیا ہو | شیح شیری
har aan sitam Dhae hai kya jaaniye kya ho

غزل

ہر آن ستم ڈھائے ہے کیا جانیے کیا ہو

زہرا نگاہ

;

ہر آن ستم ڈھائے ہے کیا جانیے کیا ہو
دل غم سے بھی گھبرائے ہے کیا جانیے کیا ہو

کیا غیر کو ڈھونڈیں کہ ترے کوچے میں ہر ایک
اپنا سا نظر آئے ہے کیا جانیے کیا ہو

آنکھوں کو نہیں راس کسی یاد کا آنسو
تھم تھم کے ڈھلک جائے ہے کیا جانیے کیا ہو

اس بحر میں ہم جیسوں پہ ہر موجۂ‌ پر خوں
آ آ کے گزر جائے ہے کیا جانیے کیا ہو

دنیا سے نرالے ہیں تری بزم کے دستور
جو آئے سو پچھتائے ہے کیا جانیے کیا ہو