EN हिंदी
حق نعمت ادا نہیں ہوتا | شیح شیری
haqq-e-neamat ada nahin hota

غزل

حق نعمت ادا نہیں ہوتا

مرلی دھر شاد

;

حق نعمت ادا نہیں ہوتا
ہم سے شکر خدا نہیں ہوتا

کیا وصال خدا نہیں ہوتا
عشق صادق سے کیا نہیں ہوتا

بے بہا دل کو نذر کرتا کون
حسن اگر دل ربا نہیں ہوتا

آہ پر ہنس کے یہ دیا طعنہ
یوں تو نام وفا نہیں ہوتا

ہوں اگر لاکھ بار بھی صدقے
حسن کا دین ادا نہیں ہوتا

ہجر میں غم گسار محرم راز
درد و غم کے سوا نہیں ہوتا

جو ستاتا ہے دل جلاتا ہے
اس کا ہرگز بھلا نہیں ہوتا

عشق کا نام مفت ہے بدنام
عشق اچھا برا نہیں ہوتا

آہ سے عرش ہلتا ہے اے شادؔ
فضل مولا سے کیا نہیں ہوتا