EN हिंदी
حقیر خاک کے ذرے تھے آسمان ہوئے | شیح شیری
haqir KHak ke zarre the aasman hue

غزل

حقیر خاک کے ذرے تھے آسمان ہوئے

عامر عثمانی

;

حقیر خاک کے ذرے تھے آسمان ہوئے
وہ لوگ جو در جاناں کے پاسبان ہوئے

شدہ شدہ وہی گلشن کے حکمران ہوئے
جو خار پی کے گلوں کا لہو جوان ہوئے

ہم ایسے اہل جنوں پر ہنسے نہ کیوں دنیا
کہ سر کٹا کے سمجھتے ہیں کامران ہوئے

یہ کم نہیں کہ بجھائی ہے پیاس کانٹوں کی
بلا سے راہ وفا میں لہولہان ہوئے

گلوں نے آبلہ پائی کی کوئی داد نہ دی
چمن میں خار ہی چھالوں کے میزبان ہوئے

کیا جو بھول کے دل نے خیال ترک وفا
ہم اپنے آپ سے کیا کیا نہ بد گمان ہوئے