حقیر خاک کے ذرے تھے آسمان ہوئے
وہ لوگ جو در جاناں کے پاسبان ہوئے
شدہ شدہ وہی گلشن کے حکمران ہوئے
جو خار پی کے گلوں کا لہو جوان ہوئے
ہم ایسے اہل جنوں پر ہنسے نہ کیوں دنیا
کہ سر کٹا کے سمجھتے ہیں کامران ہوئے
یہ کم نہیں کہ بجھائی ہے پیاس کانٹوں کی
بلا سے راہ وفا میں لہولہان ہوئے
گلوں نے آبلہ پائی کی کوئی داد نہ دی
چمن میں خار ہی چھالوں کے میزبان ہوئے
کیا جو بھول کے دل نے خیال ترک وفا
ہم اپنے آپ سے کیا کیا نہ بد گمان ہوئے
غزل
حقیر خاک کے ذرے تھے آسمان ہوئے
عامر عثمانی