حقیقتوں سے کبھی انحراف مت کیجے
قصور جس کا ہو اس کو معاف مت کیجے
کسی بزرگ کے چہرے پہ کچھ نہیں لکھا
ادب تو کیجیے اس کا طواف مت کیجے
خطا ہو آپ کی تو کیجیے اسے تسلیم
خطا نہ ہو تو کبھی اعتراف مت کیجے
معاہدہ ہو تعلق ہو انکساری ہو
کبھی مزاج کے اپنے خلاف مت کیجے
وہ گھر کا راز ہو یا دوستوں کی باتیں ہوں
کسی پہ ان کا کبھی انکشاف مت کیجے
غزل اشاروں کنایوں کا نام ہے گوہرؔ
غزل میں بات کوئی صاف صاف مت کیجے
غزل
حقیقتوں سے کبھی انحراف مت کیجے
گوہر عثمانی