حقیقت سے جو آشنا ہو گیا
قیود ہوس سے رہا ہو گیا
نقوش عمل کو مٹا کر کوئی
امیر طلسم دعا ہو گیا
وہ قید تصور سے آزاد ہے
لطافت کا جو آئنہ ہو گیا
تہی دامنی سے پشیماں تھے ہم
وہ تر دامنی پر خفا ہو گیا
ہے چہروں پہ کیوں چھائی پژمردگی
شگفتہ دلوں کو یہ کیا ہو گیا
جو خود خالق مدعا تھا کبھی
وہی بندۂ مدعا ہو گیا
وفاؔ میکدے اب نہ جائے کوئی
وہ رند ازل پارسا ہو گیا

غزل
حقیقت سے جو آشنا ہو گیا
وفا براہی