حقیقت ہے اسے مانیں نہ مانیں گھٹتی بڑھتی ہیں
وہ جھوٹی ہوں کہ سچی داستانیں گھٹتی بڑھتی ہیں
کسی پہلو سے کوئی تیر آ کر چاٹ جائے گا
ہزاروں زاویے ہیں اور کمانیں گھٹتی بڑھتی ہیں
فلک گیری کی خواہش بال و پر کو راکھ کر دے گی
ہوس رانو پرندوں کی اڑانیں گھٹتی بڑھتی ہیں
شکم سیری نے دسترخوان بچھوائے ہیں لوگوں سے
مذاق ذائقہ سمجھو زبانیں گھٹتی بڑھتی ہیں
بلندی اور پستی کا کوئی معیار طے کر لو
زمیں تنگ ہو رہی ہے اور چٹانیں گھٹتی بڑھتی ہیں
میں ان چاندی کے بازاروں پہ اپنے دانت کیا گاڑوں
چمکتی پھیکی پڑتی سب دوکانیں گھٹتی بڑھتی ہیں
شررؔ میں ایسی مٹی پر اساس فن نہیں رکھتا
رسانوں کا بھروسہ کیا رسانیں گھٹتی بڑھتی ہیں
غزل
حقیقت ہے اسے مانیں نہ مانیں گھٹتی بڑھتی ہیں
کلیم حیدر شرر