حقائق کو بھلانا چاہتے ہیں
کوئی رنگیں فسانہ چاہتے ہیں
بدن پر اوڑھ کر گرد مسافت
غم منزل چھپانا چاہتے ہیں
گئی شب کی روپہلی ساعتوں کو
نئی دھج سے سجانا چاہتے ہیں
پرندوں کو نہ پتھر سے اڑاؤ
مسافر ہیں ٹھکانا چاہتے ہیں
کشادہ سائباں سب کے لیے ہو
رعایت سب اٹھانا چاہتے ہیں
نسیم صبح ہو صرصر ہو کچھ ہو
یہ پودے لہلہانا چاہتے ہیں
وہ خود بھی تو کبھی آئے تھے محسنؔ
جو محفل سے اٹھانا چاہتے ہیں

غزل
حقائق کو بھلانا چاہتے ہیں
محسنؔ بھوپالی