حق و ناحق جلانا ہو کسی کو تو جلا دینا
کوئی روئے تمہارے سامنے تم مسکرا دینا
تردد برق ریزوں میں تمہیں کرنے کی کیا حاجت
تمہیں کافی ہے ہنستا دیکھ لینا مسکرا دینا
دلوں پر بجلیاں گرنے کی صورت گر کوئی پوچھے
تو میں کہہ دوں تمہارا دیکھ لینا مسکرا دینا
ہوئی بجلی سے کس دن نقل انداز ستم گاری
تمہاری طرح سیکھا لاکھ اس نے مسکرا دینا
ستم گاری کی تعلیمیں انہیں دی ہیں یہ کہہ کہہ کر
کہ روتا جس کسی کو دیکھ لینا مسکرا دینا
تکلف بر طرف کیوں پھول لے کر آؤ تربت پر
مگر جب فاتحہ کو ہاتھ اٹھانا مسکرا دینا
نہ کیوں ہم انقلاب دہر کو مانیں اگر دیکھیں
گلوں کا نالہ کرنا بلبلوں کا مسکرا دینا
نہ جانا ناتوانی پر کہ اب بھی سعئ ناخن سے
دکھا سکتے ہیں ہم زخم کہن کا مسکرا دینا
تمہارے نام میں کیا زعفراں کی شاخ ہے سائلؔ
کہ جو سنتا ہے اس کو اس کو سن کر مسکرا دینا
غزل
حق و ناحق جلانا ہو کسی کو تو جلا دینا
سائل دہلوی