حق کسی کا ادا نہیں ہوتا
ورنہ انساں سے کیا نہیں ہوتا
دل کا جانا تو بات بعد کی ہے
دل کا آنا برا نہیں ہوتا
کیا ہوا دل کو مدتیں گزریں
ذکر مہر و وفا نہیں ہوتا
حسن کے ہیں ہزارہا پہلو
ایک پہلو ادا نہیں ہوتا
خود پہ کیا کیا وہ ناز کرتے ہیں
جب کوئی دیکھتا نہیں ہوتا
دل بجھا ہو تو خندۂ گل بھی
چبھتا ہے جاں فزا نہیں ہوتا
ڈھونڈھ لاتی ہے ایک شوخ نگاہ
لب پہ جو مدعا نہیں ہوتا
خوں بہاتے ہیں بے گناہوں کا
یہ کوئی خوں بہا نہیں ہوتا
زندگی میں ہیں تلخیاں پھر بھی
آدمی بے مزا نہیں ہوتا
حق تو حامدؔ یہ ہے کہ حق کے سوا
کوئی مشکل کشا نہیں ہوتا
غزل
حق کسی کا ادا نہیں ہوتا
سید حامد