EN हिंदी
ہنوز زندگی تلخ کا مزہ نہ ملا | شیح شیری
hanuz zindagi-e-talKH ka maza na mila

غزل

ہنوز زندگی تلخ کا مزہ نہ ملا

یگانہ چنگیزی

;

ہنوز زندگی تلخ کا مزہ نہ ملا
کمال صبر ملا صبر آزما نہ ملا

مری بہار و خزاں جس کے اختیار میں ہے
مزاج اس دل بے اختیار کا نہ ملا

جواب کیا وہی آواز بازگشت آئی
قفس میں نالۂ جاں کا مجھے مزہ نہ ملا

امیدوار رہائی قفس بدوش چلے
جہاں اشارۂ توفیق غائبانہ ملا

ہوا کے دوش پہ جاتا ہے کاروان نفس
عدم کی راہ میں کوئی پیادہ پا نہ ملا

ہزار ہاتھ اسی جانب ہے منزل مقصود
دلیل راہ کا غم کیا ملا ملا نہ ملا

بس ایک نقطۂ فرضی کا نام ہے کعبہ
کسی کو مرکز تحقیق کا پتا نہ ملا

امید و بیم نے مارا مجھے دوراہے پر
کہاں کے دیر و حرم گھر کا راستا نہ ملا

خوشا نصیب جسے فیض عشق شور انگیز
بقدر ظرف ملا ظرف سے سوا نہ ملا

سمجھ میں آ گیا جب عذر فطرت مجبور
گناہ گار ازل کو نیا بہانہ ملا

بجز ارادہ پرستی خدا کو کیا جانے
وہ بد نصیب جسے بخت نارسا نہ ملا

نگاہ یاسؔ سے ثابت ہے سعی لا حاصل
خدا کا ذکر تو کیا بندۂ خدا نہ ملا