EN हिंदी
ہنسوں جوں گل ترے زخموں سے الفت اس کو کہتے ہیں | شیح شیری
hansun jun gul tere zaKHmon se ulfat isko kahte hain

غزل

ہنسوں جوں گل ترے زخموں سے الفت اس کو کہتے ہیں

ولی عزلت

;

ہنسوں جوں گل ترے زخموں سے الفت اس کو کہتے ہیں
تو گالی دے دعاؤں میں محبت اس کو کہتے ہیں

نہیں غم حشر کا ہر چند آفت اس کو کہتے ہیں
پھروں یاروں کا منہ دیکھوں قیامت اس کو کہتے ہیں

مرے سیلاب اشکوں میں بہے دنیا، پہ جوں سایا
نہ سرکا میں جگہ سے استقامت اس کو کہتے ہیں

عطا کر سیم شبنم جوں ہنسی صبح اپنے احساں پر
گرہ ہوئی گل کی پیشانی پر عزت اس کو کہتے ہیں

دم روشن دلی جو مارتے ہیں شمع سے زاہد
کٹے سے ناک سرکش تر ہیں ذلت اس کو کہتے ہیں

بگولے سا اڑاتا دھول عزلتؔ وجد کرتا ہے
سر بازار رسوائی میں خلوت اس کو کہتے ہیں