EN हिंदी
ہنستی ہوئی تنہا وہ دریچے میں کھڑی ہے | شیح شیری
hansti hui tanha wo dariche mein khaDi hai

غزل

ہنستی ہوئی تنہا وہ دریچے میں کھڑی ہے

قمر اقبال

;

ہنستی ہوئی تنہا وہ دریچے میں کھڑی ہے
لڑکی ہے کہ ترشے ہوئے ہیروں کی لڑی ہے

سونے کا یہ انداز ہے خفگی کی علامت
چہرہ کئے دیوار کی جانب وہ پڑی ہے

کہرے میں گھری شام کی ڈولی سے اتر کر
تنہائی کی چوکھٹ پہ تری یار کھڑی ہے

دل عمر کے قانون کا قائل نہیں ورنہ
احساس اسے بھی ہے کہ وہ مجھ سے بڑی ہے

آنکھوں میں ترے غم کا ہے ہنستا ہوا موسم
دل میں تری یادوں کی ہری فصل کھڑی ہے

پابندئ اوقات ہوئی اس سے نہ ہوگی
ہر چند کہ نازک سے کلائی میں گھڑی ہے

مقتول کو کر آئے جہاں دفن قمرؔ لوگ
تلوار بھی قاتل کی وہیں پر تو گڑی ہے