ہنسو تو رنگ ہوں چہرے کا رؤو تو چشم نم میں ہوں
تم مجھ کو محسوس کرو تو ہر موسم میں ہوں
چاہا تھا جسے وہ مل بھی گیا پر خواب بھرے ہیں آنکھوں میں
اے میرے لہو کی لہر بتا اب کون سے میں عالم میں ہوں
لوگ محبت کرنے والے دیکھیں گے تصویر اپنی
ایک شعاع آوارہ ہوں آئینۂ شبنم میں ہوں
اس لمحے تو گردش خوں نے میری یہ محسوس کیا
جیسے سر پہ زمیں اٹھائے اک رقص پیہم میں ہوں
یار مرا زنجیریں پہنے آیا ہے بازاروں میں
میں کہ تماشا دیکھنے والے لوگوں کے ماتم میں ہوں
جو لکھے وہ خواب مرے اب آنکھوں آنکھوں زندہ ہیں
جو اب تک نہیں لکھ پایا میں ان خوابوں کے غم میں ہوں
غزل
ہنسو تو رنگ ہوں چہرے کا رؤو تو چشم نم میں ہوں
عبید اللہ علیم