ہنسی میں وہ بات میں نے کہہ دی کہ رہ گئے آپ دنگ ہو کر
چھپا ہوا تھا جو راز دل میں کھلا وہ چہرہ کا رنگ ہو کر
ہمیشہ کوچ و مقام اپنا رہا ہے خضر رہ طریقت
رکا تو میں سنگ میل بن کر چلا تو آواز چنگ ہو کر
نہ توڑتے آرسی اگر تم تو اتنے یوسف نظر نہ آتے
یہ قافلہ کھینچ لائی سارا شکست آئینہ زنگ ہو کر
شباب و پیری کا آنا جانا غضب کا پر درد ہے فسانہ
یہ رہ گئی بن کے گرد حسرت وہ اڑ گیا رخ سے رنگ ہو کر
جو راز دل سے زباں تک آیا تو اس کو قابو میں پھر نہ پایا
زباں سے نکلا کلام بن کر کماں سے چھوٹا خدنگ ہو کر
غضب ہے بحر فنا کا دھارا کہ مجھ کو الجھا کے مارا مارا
نفس نے موجوں کا جال بن کر لحد نے کام نہنگ ہو کر
ملا دل نا حفاظ مجھ کو تو کیا کسی کا لحاظ مجھ کو
کہیں گریباں نہ پھاڑ ڈالیں جناب ناصح بھی تنگ ہو کر
جو اب کی مینائے مے کو توڑا چلے گی تلوار محتسب سے
لہو بھی رندوں کا دیکھ لینا بہا مئے لالہ رنگ ہو کر
نہ ضبط سے شکوہ لب تک آیا نہ صبر نے آہ کھینچنے دی
رہا دہن میں وہ قفل بن کر گرایا چھاتی پہ سنگ ہو کر
سمجھ لے صوفی اگر یہ نکتہ ہے ایک بزم سماع ہستی
تو نو پیالے یہ آسماں کے بجیں ابھی جل ترنگ ہو کر
بھلا ہو افسردہ خاطری کا کہ حسرتوں کو دبا کے رکھا
بچا لیا ہرزگی سے اس نے لحاظ ناموس و ننگ ہو کر
جگر خراشی سے پائی فرصت نہ سینہ کاوی سے ناخنوں نے
گلا گریباں نے گھونٹ ڈالا جنوں کی شورش سے تنگ ہو کر
بدل کے دنیا نے بھیس صدہا اسے ڈرایا اسے لبھایا
کبھی زن پیر زال بن کر کبھی بت شوخ و شنگ ہو کر
اٹھے تھے تلوار کھینچ کر تم تو پھر تأمل نہ چاہئے تھا
کہ رہ گئی میرے دل کی حسرت شہید تیغ درنگ ہو کر
جو ولولے تھے وہ دب گئے سب ہجوم لیت و لعل میں حیدرؔ
جو حوصلے تھے وہ دل ہی دل میں رہے دریغ و درنگ ہو کر
غزل
ہنسی میں وہ بات میں نے کہہ دی کہ رہ گئے آپ دنگ ہو کر
نظم طبا طبائی