ہنسی میں حق جتا کر گھر جمائی چھین لیتا ہے
مرے حصے کی ٹوٹی چارپائی چھین لیتا ہے
اسے موقع ملے تو پائی پائی چھین لیتا ہے
یہاں بھائی کی خوشیاں اس کا بھائی چھین لیتا ہے
بھلا فرصت کسے ہے جو یہاں رشتوں کو پہچانے
یہ دور خود فریبی آشنائی چھین لیتا ہے
جہالت میں وہ کامل ہے معلم بن گیا کیسے
پڑھاتا ہے کہ بچوں کی پڑھائی چھین لیتا ہے
روا ہے اس کو ہر سرقہ توارد کے بہانے سے
کبھی نظمیں کبھی غزلیں پرائی چھین لیتا ہے
کوئی قابو نہیں چلتا کہ اس کے حسن کا ڈاکو
کسی بھی پارسا کی پارسائی چھین لیتا ہے
مرا محبوب نٹورلال ہے کیا جو مرے دل کو
دکھا کر اپنے ہاتھوں کی صفائی چھین لیتا ہے
بڑا چالاک ہے شاگرد سے استاد حیراں ہیں
غزل کہتے ہی وہ بن کر قصائی چھین لیتا ہے
ہم اپنی قوم کا جب چاہتے ہیں رہنما بننا
کوئی ''دادا'' ہماری رہنمائی چھین لیتا ہے
سلامت میرا سرمایہ کبھی رہنے نہیں پاتا
نہ چھینے وہ تو کوئی ایکس وائی چھین لیتا ہے
کمائی چھوٹے افسر بھی کیا کرتے ہیں لاکھوں میں
مگر سب سے بڑا افسر ملائی چھین لیتا ہے
بدن میرا ٹھٹھر جاتا ہے اس کی سرد مہری سے
وہ ظالم ہے محبت کی رضائی چھین لیتا ہے
بڑھاپے کے لیے کوئی رقم جب بھی بچاتا ہوں
تو بیٹا ہی اسے دے کر دہائی چھین لیتا ہے
یہی مغرب کی خوبی ہے یہی فیضان ہے اس کا
برائی بانٹ دیتا ہے بھلائی چھین لیتا ہے
نکلنے ہی نہیں دیتا کسی کو اپنے پھندے سے
دماغ و دل سے تدبیر رہائی چھین لیتا ہے
ظفرؔ تم وقت سے ڈرتے رہو اس پر نظر رکھو
یہ دل بر سے بھی اس کی دل ربائی چھین لیتا ہے
غزل
ہنسی میں حق جتا کر گھر جمائی چھین لیتا ہے
ظفر کمالی