ہنسی کی بات کہ اس نے وہاں بلا کے مجھے
بہت رلایا کہانی مری سنا کے مجھے
ہر ایک لمحہ مرا خوف کی گرفت میں ہے
محافظوں سے بچائے گا کون آ کے مجھے
کمال فن سے لیا کام اس نے مجھ سے بھی
تباہ اپنے عدو کو کیا بچا کے مجھے
وہ باغ باغ ہوا ہے تو بے سبب بھی نہیں
ملا ہے کچھ تو اسے خاک میں ملا کے مجھے
تمہیں خبر ہے کہ سر پر پڑے گی راکھ ترے
اڑا دیا ہے فضا میں جو یوں جلا کے مجھے
اسے بنایا تھا میں نے بڑی ہی محنت سے
خدا گواہ کہ وہ بھی چلا بنا کے مجھے
اسے کہو کہ ہیں حاضر مزید دکھ دے لے
بہت سکون ملا ہے اگر ستا کے مجھے
غزل
ہنسی کی بات کہ اس نے وہاں بلا کے مجھے
سعد اللہ شاہ